۸ آذر ۱۴۰۳ |۲۶ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 28, 2024
مسرت زہرا

حوزہ/حکومت ہندوستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں خاتون فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کے خلاف سوشل میڈیا پر مبینہ 'قوم دشمن' اور 'اشتعال انگیز' پوسٹس لگانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مسرت زہرا گذشتہ کئی سال سے فری لانس صحافی کے طور پر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سرگرم ہیں اور کئی انڈین اور بین الاقوامی خبررساں اداروں کے لئے کام کر چکی ہیں۔

تاہم پولیس کے بیان میں مسرت زہرا کو ایک فیس بُک صارف کے طور متعارف کر کے اُن پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے کئی اشتعال انگیز پوسٹس کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کو ہند مخالف مسلح بغاوت کے لئے اُکسایا ہے۔

تاہم رابطہ کرنے پر مسرت زہرا نے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ اُنھوں نے خواتین میں نفسیاتی تناؤ سے متعلق ایک خبر کے لیے گاندربل ضلع کی ایک خاتون کا انٹرویو کیا تھا جنھوں نے بتایا کہ 20 سال قبل اُن کے خاوند کو ایک ’جعلی مقابلے‘ میں ہلاک کیا گیا تھا۔ مسرت کے مطابق انھوں نے اس خبر سے متعلق تصاویر بھی پوسٹ کی تھیں۔

مسرت کو سرینگر میں قائم سائبر پولیس سٹیشن طلب کیا گیا تھا جس کے بعد مقامی صحافیوں نے محکمہ اطلاعات کی ناظمہ سحرِش اصغر سے رابطہ کیا۔

مسرت کہتی ہیں: ’سحرِش جی نے مجھے بتایا کہ یہ معاملہ حل ہو چکا ہے، اب وہاں جانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن مجھے اب کہا گیا ہے کہ ایس ایس پی صاحب نے طلب کیا ہے اس لیے مجھے منگل کو وہاں جانا ہوگا۔‘

پولیس نے مسرت کے خلاف مقدمہ کی تصدیق کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا جس میں عوام کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ’ملک دشمن‘ مواد پوسٹ کرنے سے اجتناب کریں اور ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں صحافیوں کی تھانوں میں طلبی ایک دیرینہ عمل ہے جو گذشتہ کئی برس سے جاری ہے تاہم یو اے پی اے قانون کے تحت مسرت ظہرہ کے خلاف کارروائی اپنی نویت کا پہلا واقعہ ہے۔ یہ قانون گذشتہ برس پارلیمان سے منظور ہوا تھا اور اسی قانون کے تحت وادی میں انسانی حقوق کے کئی کارکنوں کو قید کیا گیا ہے۔

کشمیر پریس کلب کے نائب صدر معظم محمد کہتے ہیں : ’کشمیر میں ویسے بھی کام کرنا خطرناک ہے اور ایسے وقت پر جب صحافی انٹرنیٹ پر پابندی اور کورونا وائرس کے خوف کے بیچ کام کر رہے ہیں تو اُن پر طرح طرح کی بندشیں عائد کرکے یہاں کی صحافت کو محدود کیا جا رہا ہے۔‘

تبصرہ ارسال

You are replying to: .